Saturday, May 06, 2017

کیرئیر کاؤنسلنگ

اگر آپ عنقریب اپنی پڑھائی مکمل کرنے جارہے ہیں اور آپ کے والد صاحب کا اپنا کوئی کاروبار، ملیں یا فیکٹریاں نہیں تو پھر آپ کے پاس تقریباً ایک ہی چوائس بچتی ہے، اور وہ ہے نوکری کی۔
تھوڑی دیر کیلئے زرا سوچیں کہ تعلیم مکمل ہوتے ہی آپ کے دروازے کے باہر ایمپلائیر حضرات کی لائنیں لگ جائیں گی، وہ آپ کو سکس ڈیجٹ سیلری آفر کریں گے اور ساتھ بنگلے، گاڑی کی چابی بھی تھما دیں گے۔ دفتر میں گھومنے والی کرسی ملے گی، شیشے کا کیبن ہوگا، باہرخوبصورت سیکرٹری بیٹھی ہوگی، ساتھ والے کیبن میں کمپنی کے مالک کی خوبرو، کنواری لڑکی کا آفس ہوگا جو آپ کو صبح شام بہانے بہانے سے دیکھا کرے گی اور آپ کی اس قابلیت کے بھی واری صدقے جائے گی جس کی خبر آپ کو خود بھی نہیں۔ پھر وہ اپنے دل کے ہاتھوں مجبور ہو کر آپ کو لنچ کی آفر کرے گی، پھر رفتہ رفتہ دوستی بڑھے گی جو آگے چل کر پیار میں بدل جائے گی۔ آپ کا باس جب یہ سب دیکھے گا تو خوشی سے پھولے نہ سمائے گا کہ اتنا ہونہار، خوبرو لڑکا اس کی بیٹی کو دس ہزار واٹ کا بلب لے کر بھی نہیں ملنا تھا۔ پھر وہ آپ کو اپنی لڑکی کا ہاتھ تھما دے گا، دھوم دھام سے شادی ہوگی، آپ ہنی مون منانے یورپ جائیں گے اور پیچھے سے کروڑپتی سسر کو ہارٹ اٹیک ہوجائے گا، آپ ہنی مون ادھورا چھوڑ کر واپس آجائیں گے اور پھر میت کے سرہانے آپ کی زوجہ کا خاندانی وکیل مرحوم سسر کی وصیت پڑھ کر سنائے گا جس کے مطابق اس کی تمام منقولہ و غیرمنقولہ جائیداد کا مالک اس کا ہونہار داماد، یعنی کہ آپ ہوں گے۔
اگر آپ کے ذہن کے کسی دور دراز گوشے میں ایسا خیال موجود ہے تو اس خناس کو فوری طور پر ذہن سے نکال پھینکیں۔ آپ کے ساتھ ایسا کچھ بھی ہونے والا نہیں کیونکہ اگر آپ کی ایسی قسمت ہوتی تو آپ نوازشریف یا زرداری کے گھر پیدا ہوئے ہوتے۔
خیر، یہ جان لیں کہ آپ نے اپنی قسمت خود بنانی ہے اور اس کیلئے انتہائی مشکل حالات سے گزرنا پڑے گا، خوب محنت کرنا ہوگی اور کسی بھی موقع پر اپنے حوصلے کو پست نہیں ہونے دینا۔
جب آپ حقیقت کی دنیا میں آجائیں تو پھر جان لیں کہ ہو سکتا ہے کہ آپ کو اپنی پہلی نوکری ڈھونڈنے میں بہت وقت لگ جائے۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ آپ کے کلاس فیلوز کو آپ سے پہلے بہت اچھی نوکریاں مل جائیں لیکن آپ ابھی تک دھکے ہی کھا رہے ہوں۔ اگر ایسا ہوا تو گھبرانے کی بات نہیں۔ یہ ایک لمبی ریس ہے جس میں چند ہفتےیا مہینوں کا فرق کوئی معنی نہیں رکھتا۔
یہ بھی ذہن بنا لیں کہ شاید آپ کو اپنی پہلی نوکری کافی نچلے لیول کی ملے، وہ لیول جو شاید آپ کی کوالیفیکیشن کے اعتبار سے بہت کم ہو، یا پھر آپ کو ملنے والی نوکری کی تنخواہ آپ کی توقع یا آپ کے کلاس فیلوز کی تنخواہ سے بہت کم ہو۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو بھی گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ سب سے پہلا اور اہم سٹیپ نوکری شروع کرنا ہے، تنخواہ، کام کی نوعیت، لوکیشن، پوزیشن، یہ سب ضمنی باتیں ہیں۔
میری پہلی جاب میں مجھے جو تنخواہ ملی تھی وہ میرے کلاس فیلوز کی اوسط تنخواہ کا نصف سے بھی کم تھی لیکن وہ فرق اللہ کی مہربانی سے چند مہینوں میں ختم ہوگیا تھا۔
اگر آپ کو اپنی تنخواہ بتاتے شرمندگی محسوس ہو تو بے شک اپنی تنخواہ زیادہ بتا دیں۔ میں خود کئی مہینے تک اپنے کلاس فیلوز کو اپنی تنخواہ ڈبل بتایا کرتا تھا ۔ ۔ ۔
یاد رہے، پہلی جاب کا حصول آپ کا سب سے اہم ٹارگٹ ہونا چاہیئے، اس وقت آپ کے پاس یہ لگژری نہیں کہ اپنی مرضی کا عہدہ اور تنخواہ ڈیمانڈ کرسکیں۔ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ جس کمپنی میں آپ کو آفر ملی ہے، وہاں آپ کیلئے گروتھ کے چانسز ہیں تو بے شک وہ آپ کو ایک چپڑاسی سے کم تنخواہ دیں، فوراً قبول کرلیں۔ آپ اپنے کیرئیر کا آغاز کرنے جارہے ہیں، ایک نیا تجربہ حاصل کرنے جارہے ہیں، پیسہ کمانے کیلئے تو عمر پڑی ہے، جب تجربہ آجائے تو پیسہ آپ کے پیچھے بھاگے گا ۔ ۔ ۔
مختصراً عرض ہے کہ پہلی جاب کیلئے آپ کو بہت سنجیدہ ہونا پڑے گا، حوصلہ بلند اورمسلسل کوشش کرنا ہوگی۔ کسی موقع پر ہمت ہار کر یہ مت سوچنا شروع کردیں کہ شاید آپ کو نوکری کبھی نہیں ملے گی۔ اللہ نے آپ کو پیدا کیا ہے، اس کی خدانخواستہ آپ سے کوئی دشمنی نہیں کہ آپ کو روزگار نہ دے۔ وہ آزمائش ضرور دے گا لیکن اس کے بعد بے انتہا انعام بھی عطا فرمائے گا۔
یہ ابھی صرف تمہید ہے، اگلی پوسٹ میں انشا االلہ اس بات پر روشنی ڈالوں گا کہ انٹرویو کی تیاری کیسے کرتے ہیں اورکس طرح اپنی کامیابی کے امکانات بڑھائے جاسکتے ہیں۔ا
 بقلم خود باباکوڈا

Friday, May 05, 2017

کاروبار اور کامیابی

سید قاسم علی شاہ
ممتاز سماجی، روحانی شخصیت اور پنجاب بناسپتی کے ڈائریکٹر مارکیٹنگ ملک خالد یعقوب کاروبار اور کامیابی کے حوالے سے اپنا اظہارخیال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ 1984ء میں لاہور سے سیل مین کی جاب سے اپنی پریکٹیکل زندگی کا آغاز کیا اور 1990ء میں جاب چھوڑ کر اپنے کاروبار کا آغاز کیا۔ جن دنوں میں جاب کر رہا تھا تو ایک دن میرا ایک دوست مجھ سے ملنے آیا اور مجھ سےسوال کیا ”خالد تو نے اپنا نصیب کتنے میں بیچا ہے؟“ یہ سن کر میں حیران ہوا اور ان کا چہرہ دیکھنے لگا اور کہا کہ ”میں آپ کا مطلب نہیں سمجھا، آپ کیا کہہ رہےہیں“ وہ کہنے لگے کہ ”آپ نے مالک کو دس ہزار کے عوض اپنا نصیب بیچ دیا ہے اور اب آپ کا مالک اس نصیب سے لاکھوں روپیہ کمائے گا، کیا کبھی اس کے بارے میں سوچا؟“ میرے دوست کا یہ کہنا تھا کہ میں نےدل میں تہیہ کر لیا کہ ان شاءاللہ مناسب وقت پر اپنا کاروبار شروع کروں گا۔ اگر آدمی اپنی آنکھیں اور کان کھلے رکھے اور اللہ تعالیٰ پر بھروسہ رکھے تو تبدیلی خودبخود آنا شروع ہو جاتی ہے۔ ہماری بد قسمتی یہ ہے کہ آج کسی بھی تعلیمی ادارے میں ایم بی اے کی کلاس میں چلے جائیں اور وہاں طالب علموں سے پوچھیں کہ ایم بی اے کرنے کے بعد آپ کیا کرنا چاہتے ہیں تو نوے فیصد سے زائد طالب علموں کا یہ جواب ہوگا کہ ہم نےجاب کرنی ہے۔ جب نیت ہی جاب والی ہوگی تو کاروبار کرنا کیسے ممکن ہوگا اور جو لوگ ملازمت کے پیشے سے وابستہ ہوتے ہیں، ان میں رسک لینے کا حوصلہ نہیں ہوتا جبکہ رسک کے بغیر کاروبار نہیں ہوتا۔
ہم نے خود سے ذہن میں بٹھا رکھا ہے کہ فلاں کاروبار اچھا ہے فلاں برا ہے، یہ کرنا چاہیے یہ نہیں کرنا چاہیے۔ کاروبار ایک ہوتا ہے لیکن اس میں ایک شخص بھوکا ہوتا ہے جبکہ دوسرا ارب پتی ہوتا ہے. اصل بات یہ ہوتی ہے کہ کام کرنے کا طریقہ کیا ہے۔ ہمارے ہاں کاروبار میں ناکامی کی ایک وجہ یہ ہے کہ جو کاروبار ایک خاندان میں نسل در نسل چلا آ رہا ہوتا ہے، اس کو چھوڑ دیا جاتا ہے، اور اس کی جگہ نیا کاروبارشروع کر دیا جاتا ہے۔ جو خاندان ایک کاروبار کر رہا ہو، فرض کریں کہ اس خاندان کا ایک بچہ تعلیم حاصل کر رہا ہو تو نہ چاہتے ہوئے بھی اسے اپنے کاروبار کی پچاس فیصد سمجھ آ جاتی ہے، اب جس کو پہلے ہی کاروبار کی پچاس فیصد سمجھ ہو، اسے اس کاروبار میں کامیاب ہونا آسان ہوتا ہے۔ آج ہمارے نوجوانوں میں جو مایوسی اور ڈپریشن ہے، اس کی دو وجوہات ہیں، پچاس فیصد نوجوانوں کے ذہنوں میں ذات پات کے مسائل چل رہے ہیں، ان کے دماغوں میں ایک ہی سوچ ہے کہ میں فلاں کا بیٹا ہوں، اس لیے ترقی نہیں کر سکتا، میرے والد کا فلاں پیشہ ہے، جو میری ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے، حالانکہ اللہ کے رسولﷺ نے اپنے ہاتھ سے کام کرنے والے کو اللہ تعالیٰ کا حبیب کہا ہے۔ پچاس فیصد نوجوان ایسے ہیں جن کے ذہنوں میں امیر اور غریب کی تفریق پائی جاتی ہے، ان کے دماغوں میں بس یہی چل رہا ہوتا ہے کہ فلاں اس وجہ سے آگے چلا گیا کہ اس کا باپ امیر ہے، میں تو غریب کا بیٹا ہوں، اس لیے آگے نہیں جا سکا حالانکہ اگر دیکھا جائے تو اس وقت دنیا میں جتنے امیر لوگ ہیں، ان میں سے اسی فیصد کا تعلق متوسط یاغریب طبقے سے ہے۔ امیر لوگوں کی اولاد کمفرٹ زون رہتی ہے جس کی وجہ سے ان میں محنت کرنے کا جذبہ پیدا نہیں ہوتا جبکہ محرومی خواب بناتی ہے اور محنت کرنے پر مجبور کرتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں سب برابر ہیں،u امیر کا بچہ بھی اسی پروسس سے پیدا ہوتا ہے، جس پروسس سے غریب کا بچہ پیدا ہوتا ہے، اللہ تعالیٰ سب کو یکساں مواقع فراہم کرتا ہے، جو امتحان ہوتے ہیں وہ تو درجات بڑھانے کے لیےu ہوتے ہیں۔
ناکامی تکرار کرنے سے بڑھتی ہے، خاموشی اختیار کرنے سے کم ہوتی ہے، صبر کرنے سے ختم ہوتی ہے، اور شکر کرنے سے کامیابی میں بدل جاتی ہے جس کسی کو اپنے کام میں کسی قسم کی مشکلات اور چیلنجز کا سامنا ہو تو اسے چاہیے کہ وہ اس حدیث قدسی کے مفہوم کو سامنے رکھے کہ ”ساری دنیا مل کر نفع پہنچانا چاہے لیکن رب نہ چاہے تو نفع نہیں ہو سکتا اور ساری دنیا مل کر نقصان پہچانا چاہے لیکن رب نفع پہچانا چاہے تو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا۔“ کوئی بھی والدین اپنی اولاد کو ناکام نہیں دیکھنا چاہتے اور وہ ذات ِباری تعالیٰ جو ستر ماؤں سے زیادہ پیار کرتا ہے، وہ کیسے چاہے گا کہ میرا بندہ ناکام ہو، اس لیے بندے کو ہمیشہ اللہ تعالیٰ سے اچھا گما ن رکھنا چاہیے، اسے سوچنا چاہیے کہ اگر میرے حالات اچھے نہیں ہیں تو اس میں اللہ تعالیٰ کی حکمت ہوگی۔ اگر غور کیا جائے، کئی حالات و واقعات ایسے ہوتے ہیں کہ جب بندہ ان سےگزر رہا ہوتا ہے تو شدید کرب میں ہوتا ہے اور اس وقت اس کی ایک ہی خواہش ہوتی ہے کہ جتنی جلد ممکن ہو سکے، ان سے چھٹکارہ مل جائے لیکن وہی حالات اس کی کامیابی کے لیے سیڑھی کا کردار ادا کرتے ہیں، بعد میں بندہ جب ان کو دیکھتا ہے تو سوچتا ہے کہ اگر وہ حالات پیش نہ آتے تو آج میں اس مقام تک نہ پہنچ پاتا۔ جو بندہ پریشانیوں کو سر پر اٹھاتا ہے، وہ اس کے نیچے دب جاتا ہے اور جو پریشانیوں کو پاؤں کے نیچے رکھتا ہے، اس کا قد پہلے سے بھی بڑا ہوجاتا ہے۔
جو شخص اچھا بزنس مین، اچھا ٹیچر، اچھا مینجر یا اچھا والد بننا چاہتا ہے، اسے سب سے پہلے اچھا انسان بننا پڑے گا۔ کسی بھی شعبےمیں کامیاب ہونے کے لیے سب سے پہلے اچھا انسان بننا بہت ضروری ہے، یہی کاروبار میں کامیابی کی پہلی سیڑھی ہے۔ آج ہم نے یقین بنا لیا ہے کہ جھوٹ کے بغیر کاروبار نہیں ہو سکتا لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ جس نے ہمیں پیدا کیا ہے، اس نے بتایا ہے کہ دنیا میں کیسے رہنا ہے اور صرف وہی کچھ کرنا ہے، جس سے دنیا اور آخرت دونوں میں کامیابی حاصل ہو۔ اللہ تعالیٰ نے ہم پر بڑا احسان یہ کیا کہ اس نے حضوراکرم ﷺ کو ہماری ہدایت کے لیے بھیجا، آج ہمارے پاس قرآنِ پاک ہے، آپ ﷺ کی سیرت طبیہ ہے جن سے استفادہ کیا جاسکتا ہے مگر بدقسمتی یہ ہے کہ ہماری اکثریت ایسے لوگوں پر مشتمل ہے جنہوں نے کبھی ترجمے کے ساتھ قرآنِ مجید نہیں پڑھا، سیرتِ طیبہ کا مطالعہ نہیں کیا۔ لوگوں کی بڑی تعداد ایسی ہے جو جذباتی حد تک تو آپﷺ سے عشق کرتی ہے لیکن انہیں آپﷺ کے شب و روز کا اندازہ ہی نہیں ہے۔ سب سے بہترین طریقہ حضوراکرم ﷺ کی اطاعت ہے، سوفیصد کامیابی کا راستہ حضوراکرم ﷺ کا بتایا ہوا راستہ ہے۔ قرآن ِپاک کو سمجھ کر پڑھنا چاہیے، یہ ہرانسان کے لیے کھلا خط ہے۔ دنیا و آخرت کی ترقی کے لیے اللہ، اس کی کتاب اور اس کے رسولﷺ کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں ہے۔
کسی بھی فیلڈ میں کامیابی حاصل کرنا بہت آسان ہوتا ہے لیکن ہم خود ہی اس کو مشکل بناتے ہیں۔ بچپن میں جب بندہ سائیکل چلانا سیکھتا ہے تو کئی دفعہ گرتا ہے لیکن اس کے باوجود سائیکل چلانا سیکھ جاتا ہے، اگر اس وقت اسے پوچھا جائے کہ کیا سائیکل چلانا آسان ہے یا مشکل ہے تو وہ جواب دےگا کہ بہت آسان ہے، بالکل ایسے ہی کوئی بھی کاروبار جب شروع کیا جاتا ہے تو اس میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن پھر آسانی پیدا ہوجاتی ہے۔ جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ پر اور اپنے آپ پر یقین ہوتا ہے، وہ سوفیصد کامیاب ہو جاتے ہیں، جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ سے اور اپنے سے امید ہوتی ہے، وہ پچاس فیصد کامیاب ہوتے ہیں اور پچاس فیصد ناکام ہوتے ہیں جبکہ جو مایوس ہوتے ہیں اور انھی اپنی کامیابی کا یقین نہیں ہوتا، وہ سوفیصد ناکام ہو جاتے ہیں۔ نپولین ہل بھی اپنی کتاب Think and Grow Rich کے پہلے باب میں یقین کا ذکر کرتا ہے۔ جو لوگ کامیاب ہوتے ہیں، ان کا پیشہ اور مشغلہ ایک ہوتا ہے، اگر کام اور مشغلہ ایک نہ ہو تو پھر محنت مشقت بن جاتی ہے اور بندہ ا نتظار کرتا رہتا ہے کہ کب وقت ختم ہو اور میری جان چھوٹے جب مشغلہ اور کام ایک ہوتا ہے تو وقت گزرنے کا احساس ہی نہیں ہوتا۔ کام اور مشغلے کے ایک ہونے کے علاوہ کاروبار میں تعلیم کا بھی اہم کردار ہوتا ہے۔ تعلیم کے بغیر انسان نابینا ہوتا ہے، تعلیم کے بغیر بندہ نہ تو دین کو سمجھ سکتا ہے اور نہ ہی دنیا کو، جس کے پاس تعلیم بھی ہو اور عمل بھی ہو تو وہ دو دھاری تلوار بن جاتا ہے اور جو شخص محنت کے ساتھ اللہ تعالیٰ پر توکل کرتا ہے، کامیابی اس کے
کاروبار اور کامیابی – سید قاسم علی شاہ
ممتاز سماجی، روحانی شخصیت اور پنجاب بناسپتی کے ڈائریکٹر مارکیٹنگ ملک خالد یعقوب کاروبار اور کامیابی کے حوالے سے اپنا اظہارخیال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ 1984ء میں لاہور سے سیل مین کی جاب سے اپنی پریکٹیکل زندگی کا آغاز کیا اور 1990ء میں جاب چھوڑ کر اپنے کاروبار کا آغاز کیا۔ جن دنوں میں جاب کر رہا تھا تو ایک دن میرا ایک دوست مجھ سے ملنے آیا اور مجھ سےسوال کیا ”خالد تو نے اپنا نصیب کتنے میں بیچا ہے؟“ یہ سن کر میں حیران ہوا اور ان کا چہرہ دیکھنے لگا اور کہا کہ ”میں آپ کا مطلب نہیں سمجھا، آپ کیا کہہ رہےہیں“ وہ کہنے لگے کہ ”آپ نے مالک کو دس ہزار کے عوض اپنا نصیب بیچ دیا ہے اور اب آپ کا مالک اس نصیب سے لاکھوں روپیہ کمائے گا، کیا کبھی اس کے بارے میں سوچا؟“ میرے دوست کا یہ کہنا تھا کہ میں نےدل میں تہیہ کر لیا کہ ان شاءاللہ مناسب وقت پر اپنا کاروبار شروع کروں گا۔ اگر آدمی اپنی آنکھیں اور کان کھلے رکھے اور اللہ تعالیٰ پر بھروسہ رکھے تو تبدیلی خودبخود آنا شروع ہو جاتی ہے۔ ہماری بد قسمتی یہ ہے کہ آج کسی بھی تعلیمی ادارے میں ایم بی اے کی کلاس میں چلے جائیں اور وہاں طالب علموں سے پوچھیں کہ ایم بی اے کرنے کے بعد آپ کیا کرنا چاہتے ہیں تو نوے فیصد سے زائد طالب علموں کا یہ جواب ہوگا کہ ہم نےجاب کرنی ہے۔ جب نیت ہی جاب والی ہوگی تو کاروبار کرنا کیسے ممکن ہوگا اور جو لوگ ملازمت کے پیشے سے وابستہ ہوتے ہیں، ان میں رسک لینے کا حوصلہ نہیں ہوتا جبکہ رسک کے بغیر کاروبار نہیں ہوتا۔
ہم نے خود سے ذہن میں بٹھا رکھا ہے کہ فلاں کاروبار اچھا ہے فلاں برا ہے، یہ کرنا چاہیے یہ نہیں کرنا چاہیے۔ کاروبار ایک ہوتا ہے لیکن اس میں ایک شخص بھوکا ہوتا ہے جبکہ دوسرا ارب پتی ہوتا ہے. اصل بات یہ ہوتی ہے کہ کام کرنے کا طریقہ کیا ہے۔ ہمارے ہاں کاروبار میں ناکامی کی ایک وجہ یہ ہے کہ جو کاروبار ایک خاندان میں نسل در نسل چلا آ رہا ہوتا ہے، اس کو چھوڑ دیا جاتا ہے، اور اس کی جگہ نیا کاروبارشروع کر دیا جاتا ہے۔ جو خاندان ایک کاروبار کر رہا ہو، فرض کریں کہ اس خاندان کا ایک بچہ تعلیم حاصل کر رہا ہو تو نہ چاہتے ہوئے بھی اسے اپنے کاروبار کی پچاس فیصد سمجھ آ جاتی ہے، اب جس کو پہلے ہی کاروبار کی پچاس فیصد سمجھ ہو، اسے اس کاروبار میں کامیاب ہونا آسان ہوتا ہے۔ آج ہمارے نوجوانوں میں جو مایوسی اور ڈپریشن ہے، اس کی دو وجوہات ہیں، پچاس فیصد نوجوانوں کے ذہنوں میں ذات پات کے مسائل چل رہے ہیں، ان کے دماغوں میں ایک ہی سوچ ہے کہ میں فلاں کا بیٹا ہوں، اس لیے ترقی نہیں کر سکتا، میرے والد کا فلاں پیشہ ہے، جو میری ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے، حالانکہ اللہ کے رسولﷺ نے اپنے ہاتھ سے کام کرنے والے کو اللہ تعالیٰ کا حبیب کہا ہے۔ پچاس فیصد نوجوان ایسے ہیں جن کے ذہنوں میں امیر اور غریب کی تفریق پائی جاتی ہے، ان کے دماغوں میں بس یہی چل رہا ہوتا ہے کہ فلاں اس وجہ سے آگے چلا گیا کہ اس کا باپ امیر ہے، میں تو غریب کا بیٹا ہوں، اس لیے آگے نہیں جا سکا حالانکہ اگر دیکھا جائے تو اس وقت دنیا میں جتنے امیر لوگ ہیں، ان میں سے اسی فیصد کا تعلق متوسط یاغریب طبقے سے ہے۔ امیر لوگوں کی اولاد کمفرٹ زون رہتی ہے جس کی وجہ سے ان میں محنت کرنے کا جذبہ پیدا نہیں ہوتا جبکہ محرومی خواب بناتی ہے اور محنت کرنے پر مجبور کرتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں سب برابر ہیں، امیر کا بچہ بھی اسی پروسس سے پیدا ہوتا ہے، جس پروسس سے غریب کا بچہ پیدا ہوتا ہے، اللہ تعالیٰ سب کو یکساں مواقع فراہم کرتا ہے، جو امتحان ہوتے ہیں وہ تو درجات بڑھانے کے لیے ہوتے ہیں۔
ناکامی تکرار کرنے سے بڑھتی ہے، خاموشی اختیار کرنے سے کم ہوتی ہے، صبر کرنے سے ختم ہوتی ہے، اور شکر کرنے سے کامیابی میں بدل جاتی ہے جس کسی کو اپنے کام میں کسی قسم کی مشکلات اور چیلنجز کا سامنا ہو تو اسے چاہیے کہ وہ اس حدیث قدسی کے مفہوم کو سامنے رکھے کہ ”ساری دنیا مل کر نفع پہنچانا چاہے لیکن رب نہ چاہے تو نفع نہیں ہو سکتا اور ساری دنیا مل کر نقصان پہچانا چاہے لیکن رب نفع پہچانا چاہے تو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا۔“ کوئی بھی والدین اپنی اولاد کو ناکام نہیں دیکھنا چاہتے اور وہ ذات ِباری تعالیٰ جو ستر ماؤں سے زیادہ پیار کرتا ہے، وہ کیسے چاہے گا کہ میرا بندہ ناکام ہو، اس لیے بندے کو ہمیشہ اللہ تعالیٰ سے اچھا گما ن رکھنا چاہیے، اسے سوچنا چاہیے کہ اگر میرے حالات اچھے نہیں ہیں تو اس میں اللہ تعالیٰ کی حکمت ہوگی۔ اگر غور کیا جائے، کئی حالات و واقعات ایسے ہوتے ہیں کہ جب بندہ ان سےگزر رہا ہوتا ہے تو شدید کرب میں ہوتا ہے اور اس وقت اس کی ایک ہی خواہش ہوتی ہے کہ جتنی جلد ممکن ہو سکے، ان سے چھٹکارہ مل جائے لیکن وہی حالات اس کی کامیابی کے لیے سیڑھی کا کردار ادا کرتے ہیں، بعد میں بندہ جب ان کو دیکھتا ہے تو سوچتا ہے کہ اگر وہ حالات پیش نہ آتے تو آج میں اس مقام تک نہ پہنچ پاتا۔ جو بندہ پریشانیوں کو سر پر اٹھاتا ہے، وہ اس کے نیچے دب جاتا ہے اور جو پریشانیوں کو پاؤں کے نیچے رکھتا ہے، اس کا قد پہلے سے بھی بڑا ہوجاتا ہے۔
جو شخص اچھا بزنس مین، اچھا ٹیچر، اچھا مینجر یا اچھا والد بننا چاہتا ہے، اسے سب سے پہلے اچھا انسان بننا پڑے گا۔ کسی بھی شعبےمیں کامیاب ہونے کے لیے سب سے پہلے اچھا انسان بننا بہت ضروری ہے، یہی کاروبار میں کامیابی کی پہلی سیڑھی ہے۔ آج ہم نے یقین بنا لیا ہے کہ جھوٹ کے بغیر کاروبار نہیں ہو سکتا لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ جس نے ہمیں پیدا کیا ہے، اس نے بتایا ہے کہ دنیا میں کیسے رہنا ہے اور صرف وہی کچھ کرنا ہے، جس سے دنیا اور آخرت دونوں میں کامیابی حاصل ہو۔ اللہ تعالیٰ نے ہم پر بڑا احسان یہ کیا کہ اس نے حضوراکرم ﷺ کو ہماری ہدایت کے لیے بھیجا، آج ہمارے پاس قرآنِ پاک ہے، آپ ﷺ کی سیرت طبیہ ہے جن سے استفادہ کیا جاسکتا ہے مگر بدقسمتی یہ ہے کہ ہماری اکثریت ایسے لوگوں پر مشتمل ہے جنہوں نے کبھی ترجمے کے ساتھ قرآنِ مجید نہیں پڑھا، سیرتِ طیبہ کا مطالعہ نہیں کیا۔ لوگوں کی بڑی تعداد ایسی ہے جو جذباتی حد تک تو آپﷺ سے عشق کرتی ہے لیکن انہیں آپﷺ کے شب و روز کا اندازہ ہی نہیں ہے۔ سب سے بہترین طریقہ حضوراکرم ﷺ کی اطاعت ہے، سوفیصد کامیابی کا راستہ حضوراکرم ﷺ کا بتایا ہوا راستہ ہے۔ قرآن ِپاک کو سمجھ کر پڑھنا چاہیے، یہ ہرانسان کے لیے کھلا خط ہے۔ دنیا و آخرت کی ترقی کے لیے اللہ، اس کی کتاب اور اس کے رسولﷺ کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں ہے۔
کسی بھی فیلڈ میں کامیابی حاصل کرنا بہت آسان ہوتا ہے لیکن ہم خود ہی اس کو مشکل بناتے ہیں۔ بچپن میں جب بندہ سائیکل چلانا سیکھتا ہے تو کئی دفعہ گرتا ہے لیکن اس کے باوجود سائیکل چلانا سیکھ جاتا ہے، اگر اس وقت اسے پوچھا جائے کہ کیا سائیکل چلانا آسان ہے یا مشکل ہے تو وہ جواب دےگا کہ بہت آسان ہے، بالکل ایسے ہی کوئی بھی کاروبار جب شروع کیا جاتا ہے تو اس میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن پھر آسانی پیدا ہوجاتی ہے۔ جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ پر اور اپنے آپ پر یقین ہوتا ہے، وہ سوفیصد کامیاب ہو جاتے ہیں، جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ سے اور اپنے سے امید ہوتی ہے، وہ پچاس فیصد کامیاب ہوتے ہیں اور پچاس فیصد ناکام ہوتے ہیں جبکہ جو مایوس ہوتے ہیں اور انھی اپنی کامیابی کا یقین نہیں ہوتا، وہ سوفیصد ناکام ہو جاتے ہیں۔ نپولین ہل بھی اپنی کتاب Think and Grow Rich کے پہلے باب میں یقین کا ذکر کرتا ہے۔ جو لوگ کامیاب ہوتے ہیں، ان کا پیشہ اور مشغلہ ایک ہوتا ہے، اگر کام اور مشغلہ ایک نہ ہو تو پھر محنت مشقت بن جاتی ہے اور بندہ ا نتظار کرتا رہتا ہے کہ کب وقت ختم ہو اور میری جان چھوٹے جب مشغلہ اور کام ایک ہوتا ہے تو وقت گزرنے کا احساس ہی نہیں ہوتا۔ کام اور مشغلے کے ایک ہونے کے علاوہ کاروبار میں تعلیم کا بھی اہم کردار ہوتا ہے۔ تعلیم کے بغیر انسان نابینا ہوتا ہے، تعلیم کے بغیر بندہ نہ تو دین کو سمجھ سکتا ہے اور نہ ہی دنیا کو، جس کے پاس تعلیم بھی ہو اور عمل بھی ہو تو وہ دو دھاری تلوار بن جاتا ہے اور جو شخص محنت کے ساتھ اللہ تعالیٰ پر توکل کرتا ہے، کامیابی اس کے پیچھے بھاگتی ہے۔