Friday, November 09, 2012

جدید بنکاری سسٹم اور اسلام

ایک مسلمان کا یہ پختہ عقیدہ ہونا چاہیے کہ انسانی زندگی کا کوئی بھی پہلو (انفرادی ہو یا اجتماعی، معاشرے کے حوالے سے ہو یا معاش کے حوالے سے، اخلاقیات پر مبنی ہو یا کہ سیاسیات پر )ایسا نہیں جس کے بارے میں شریعت نے رہنمائی نہ فرما دی ہو۔

بد قسمتی یہ ہے کہ مسلمانوں کی ایک کثیر تعداد اسلام سے دوری کے باعث اسلام کی بے پایا قیمتی اور چمکتی دھمکتی تعلیمات سے غافل ہے۔ کچھ لوگ ایسے ہیں جو نماز روزہ کی پابندی تو کرتے ہیں لیکن ان کا دین بھی بد قسمتی سے نماز روزہ سے آگے کچھ نہیں سوچتا ان کی سوچ کا محور وہیں پر ختم ہو جاتا ہے اور وہی کچھ ان کے لیے دین ہے۔ اور اس کے برعکس معاش کے معاملے میں اسلام کو اس طرح نظر انداز کرتے ہیں جیسے اسلام نے معاشی نظام کے حوالے سے کچھ بھی بیان نہ کیا ہو۔

یہاں یہ بھی ذکر کرتا چلوں کہ جدید دور میں بنکاری سسٹم کی الجھنوں میں الجھ کر ہمارے کچھ علماء کرام بھی جو ان الجھنوں کو سمجھ نہیں پاتے ان معاملات کو جائز اور حلال تصور کرتے ہیں اور اس کے حق میں فتاوی بھی جاری کرتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ان جدید معاملات کو خود بھی سمجھا جائے اور جن لوگوں کی ذمہ داری مسلم امہ کو تبلیغ ووعظ کی ہے ان کو بالخصوص اس معاملے میں گائیڈ کیا جائے تا کہ لوگوں کو اپنے شیریں بیانوں سے گائیڈ کریں اور اس الجھاؤ والی حرام معاشیات سے دور کریں۔



انہی جدید مالی معاملات کے الجھاؤ میں سے ایک انشورنس کا معاملہ بھی ہے جس کو ہمارے بہت سے دین دار لوگ بھی بہتر چیز سمجھتے ہیں اور مختلف انداز میں پالیسیاں خریدتے ہیں اور اپنی لائف کو ’انشور‘ کرتے ہیں۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ایک مسلمان کسی ایسے معاشرے میں رہ رہا ہوتا ہے جہاں وہ مجبورا اس انشورنس کے چکر میں پھنس جاتا ہے جہاں پراپرٹی،
 گاڑیاں یا دیگر اشیاء کی خریداری پر انشورنس قانونی جزو قرار دی جاتی ہے۔





ہم یہاں پر انشورنس کی تاریخ کے حوالے سے بات نہیں کریں گے، ہم یہ جاننا چاہتے ہیں کہ انشورنس ہے کیا؟؟؟

انشورنس انگلش کے لفظ ’Insure‘ سے لیا گیا ہے جس کے معنی ضمانت اور اعتماد کے ہیں۔۔۔ عربی میں اس لفظ کا زیادہ بہتر ترجمہ ہوتا ہے ’’التأمین‘‘ جو ’امن‘‘ سے ماخوذ ہے اور اس کا معنی ہے اطمینان دلانا۔

انشورنس کی تعریف یہ ہے کہ ایک ادارہ کسی شخص ، بزنس، گاڑی وغیرہ کے ممکنہ خطرات کی پیش نظر اس کو ضمانت دیتا ہےکہ اگر آپ کو فلاں فلاں خطرات لاحق ہوں تو ان نقصانات کی تلافی ادارہ (انشورنس کرنے والا) کرے گا۔ اور اس ضمن میں جس کی انشورنس کی جا رہی ہے وہ مذکور ادارے کو مدت معینہ تک پالیسی کی قیمت کے حساب کے مطابق قسطوں میں ایک مقررہ رقم جمع کرواتا رہے گا۔

انشورنس کی بے شمار قسموں میں سے ہم یہاں صرف لائف انشورنس کا ذکر کریں گے،،، جس میں انشورنس کمپنی کسی بھی شخص سے اس کی زندگی کی انشورنس کرتی ہے،،، اور پالیسی کی قیمت کے حساب سے شخص مذکور کو کمپنی میں قسط وار طے شدہ مدت تک ایک مخصوص رقم جمع کروانی ہوتی ہے۔ اور اگر خدانخواستہ قسطوں کی مدت پوری ہونے سے انشورنس کروانے والا شخص فوت ہو جاتا ہے تو کمپنی اس کے ورثاء کو طے شدہ رقم ادا کر دیتی ہے بھلے اس کی قسطوں میں سے 20 فیصد بھی جمع نہ ہوا ہو۔

اور اگر قسطیں پوری ہونے تک شخص مذکو رزندہ رہے اور قسطیں باقاعدگی سے ادا کرتا رہے تو پھر اس صورت میں کمپنی اس کو طے شدہ رقم بمع طے شدہ اضافے کے واپس کرتی ہے۔



انشورنس لائف کے حوالے سے چند الفاظ لکھنے کے بعد میں ذکر کر دوں کہ درج ذیل وہ وجوہات ہیں جن کی بنا پر انشورنس کی تمام شکلیں لائف انشورنسہو، کمرشل انشورنس ہو، گاڑیوں کی انشورنس ہو، تھرڈ پارٹی انشورنس ہو یا کسی اور قسم کی انشورنس اسلامی تعلیمات کی روشنی میں قطعی ناجائز اور حرام ٹھہرتی ہیں۔



خرابیاں:

1۔ انشورنس میں سود کی قسم ’’ربا النسیئۃ‘‘ (ادھار پر رقم لی اور واپسی میں اضافہ کے ساتھ دی) پائی جاتی ہے۔ اور دوسری قسم سود کی اس میں ’’ربا الفضل‘‘ پائی جاتی ہے۔ یہ بھی اسی سے ملتی جلتی قسم ہے کہ اصل مال پر مخصوص مارک اپ سے اضافی رقم وصول کرنا۔

اس میں چونکہ ہوتا یہ ہے کہ انشورنس کروانے والا اگر مکمل قسطیں ادا کیے بنا فوت ہو جائے تو کمپنی تو طے شدہ رقم اپنی شرائط کے مطابق اس کے ورثاء کو ادا کرے گی جو اس کی ادا کی ہوئی رقم سے یا زیادہ ہو گی یا کم۔ اگر ادا کی گئی قسطوں سے رقم زیادہ ہو تو تو یہ ’’ربا الفضل‘‘ میں آ جاتا ہے۔ اور اگر ادا کی گئی رقم سے کم ہو تو ربا النسئیۃ میں آجاتا ہے۔



2۔ اسلام نے کسی کو ’’بیع غرر‘‘ (دھوکے ونقصان کی خرید وفروخت) کی اجازت قطعی نہیں دی ہے اور انشورنس میں قطعی طور پر بیع غرر کی صورت حال ہوتی ہے۔

کیونکہ ادائیگی ایک ایسے واقعہ کی بنیاد پر ہوتی ہے جو ہو گا بھی کہ نہیں۔ اگر واقعہ ہو گیا اور انشورنس کروانے والا فوت ہو گیا تو سراسر نقصان کمپنی کا ہوتا ہے۔ اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ شخص مذکور حیات رہے اور تمام تر اقساط کمپنی کو جمع کرواتا رہے اور اس صورت میں اس کی تمام تر اقساط بلامعاوضہ کمپنی کے اکاؤنٹ میں جمع ہوتی ہیں۔ اور یہ صورت انشورنس کروانے والے کے لے زیادہ فائدہ مند نہیں ہوتی۔



یہاں ایک وضاحت کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ شرعی طور پر کسی معاملہ میں ذمہ داری اس شخص کے سر پڑتی ہے جس سے ڈائیریکٹ نقصان ہوا ہو یا پھر کم از کم اس نقصان کے ہونے کا باعث بنا ہو۔ اس صورت میں وہ کمپنی یا شخص نقصان کی ادائیگی کا ذمہ دار ٹھہرتا ہے۔ جبکہ بیمہ پالیسیوں میں بیمہ کمپنی کی طرف سے ایسا کوئی سبب نہیں بنتا نہ وہ خود ڈائیریکٹ نقصان کرتے ہیں اور نہ ہی نقصان کا باعث بنتے ہیں۔

لہٰذا جب ایسی صورت ہو نہ خود انہوں نے نقصان کیا اور نہ ہی نقصان کا باعث بنے تو شریعت ان پر نقصان کی ادائیگی کی ذمہ داری قطعی نہیں ڈالتی۔

 انشورنس لائف کے حوالے سے جو مختصر خادم کو سمجھ آیا نوٹ کر دیا۔...